Monday 25 January 2016

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا
یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا
گزر ہی آئے کسی طرح تیرے دیوانے
قدم قدم پہ کوئی سخت مرحلہ تو رہا
چلو نہ عشق ہی جیتا نہ عقل ہار سکی
تمام وقت مزے کا مقابلہ تو رہا
میں تیری ذات میں گم ہو سکا نہ تُو مجھ میں
بہت قریب تھے ہم، پھر بھی فاصلہ تو رہا
یہ اور بات کہ ہر چھیڑ لا ابالی تھی
تِری نظر کا دلوں سے معاملہ تو رہا

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment