Monday, 25 January 2016

زمیں ہو گی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے

زمیں ہو گی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں، ہم نہ کہتے تھے
علاجِ چاکِ پیراہن ہُوا تو ۔۔۔ اس طرح ہو گا 
سِیا جائےگا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ترانے کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کر لیں گے 
عجب انداز سے پھیلے گا زِنداں ہم نہ کہتے تھے
کوئی اتنا نہ ہو گا لاش بھی لے جا کے دفنا دے 
انہیں سڑکوں پہ مر جائےگا اِنسان ہم نہ کہتے تھے
نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہےآنکھوں میں
اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے
چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اتر آئیں 
ستائے گی کسی دِن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے 
نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اجڑ جائےگا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے 

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment