کوئی بجھتا ہوا منظر نہیں دیکھا جاتا
اب کسی آنکھ کو پتھر نہیں دیکھا جاتا
وہ ہمارا نہ سہی ۔۔ اور قبیلے کا سہی
ہم سے پسپا کوئی لشکرنہیں دیکھا جاتا
کیا یہ سچ ہے کہ تِرے آئینہ خانوں میں مجھے
وہ نہ لوٹا، تو اسے لوٹ کے آنا بھی نہ تھا
یوں بھی ایک خواب مکرر نہیں دیکھا جاتا
مجھ کو پانا ہے تو پھر مجھ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر، نہیں دیکھا جاتا
کوئی آسیب میرے شہر میں ایسا بھی ہے شوقؔ
جس سے آباد کوئی گھر نہیں دیکھا جاتا
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment