Friday, 29 January 2016

قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزم شراب میں

 قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں

ساقی! ہزار شکر خدا کی جناب میں

جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں

سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں

دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں

محشر کے دن بٹھائے گئے آفتاب میں

رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں

یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں

تیرِ دعا نشانے پہ کیوں کر نہ بیٹھتا

کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں

وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے

کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں

حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا

پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں

مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ

جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں

سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل

کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں

چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع

کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں

دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے

ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں

ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں

موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں

اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر

بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں

چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے

شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں

کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں

بلبل بنے جو بلبلہ اٹھے گلاب میں

چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے

مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں

ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند

اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں

جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر

اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں


امیر مینائی

No comments:

Post a Comment