دیدۂ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے
ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے
پیار تعمیر ہو جب بغض کی بنیادوں پر
ملتی نظروں میں شناسائی کہاں سے آئے
گم ہیں رنگوں میں خدوخال بھی تصویروں کے
میری ہر سوچ کے رستے میں کھڑا ہے کوئی
آئینہ خانے میں تنہائی کہاں سے آئے
میری آواز خموشی نے مجھے لوٹا دی
مجھ میں اب جرأتِ گویائی کہاں سے آئے
کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ کسی کو زندہ
خوں کے پیاسوں میں مسیحائی کہاں سے آئے
اس قدر شوقِ درآمد ہے مظفرؔ ہم کو
سوچتے رہتے ہیں رسوائی کہاں سے آئے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment