Thursday, 28 January 2016

دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں

 دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں

یہ تو بیمار سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں

آپ کا زور مِرے دل پہ نہ کیونکر چلتا

کیا مِرا حب کا عمل تھا کہ جو چلتا ہی نہیں

چمنِ دہر میں یہ عاشقِ ناکام تِرا

وہ شجر ہے کہ کبھی پھولتا پھلتا ہی نہیں

نالہ نکلا کبھی دل سے تو کبھی آہ و فغاں

پر تِری وصل کا ارمان نکلتا ہی نہیں

اس کے ہاتھوں نہ ہو جب تک کسی مظلوم کا خوں

اپنے ہاتھوں میں حنا وہ کبھی ملتا ہی نہیں

ہیں تِری راہِ محبت میں ہزاروں فتنے

دیکھ مجھ کو بجز اس راہ کے چلتا ہی نہیں

دن ڈھلے آنے کا وعدہ ہے کسی سے لیکن

آج یہ دن وہ قیامت ہے کہ ڈھلتا ہی نہیں

شمع کی طرح سے روتا بھی ہے عاشق تیرا

مثلِ پروانہ فقط آگ میں جلتا ہی نہیں

موم ہوتا ہے مِری آہ سے پتھر، لیکن

سنگدل ایک تِرا دل کہ پگھلتا ہی نہیں

خضر بھی تو اسی گرداب سے چکراتے ہیں

ڈوب کر بحرِ محبت میں اُچھلتا ہی نہیں

تیرہ بختی نِگہ اپنی تو جانا ہم نے

کہ کبھی رنگ زمانے کا بدلتا ہی نہیں

کس طرح دل خمِ ابرو سے نکالوں اے داغ

پڑ گیا پیچ کچھ ایسا کہ نکلتا ہی نہیں​


داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment