زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی
ایک تنویرِ حیات آج ابھرنے سے رہی
میں پیمبر نہیں، انسان ہوں، خطا کار انساں
عرش سے کوئی وحی مجھ اترنے سے رہی
میں نے کر رکھا ہے محصور چمن حد تک
لاکھ افکار و حوادث مجھے روندیں بڑھ کر
جو وفا مجھ کو ملی ہے، کبھی مرنے سے رہی
آدمی کتنے ہیولے ہی بنا کر رکھے
موت پھر موت ہے، جب آئی تو ڈرنے سے رہی
آخری وقت ہے، مختل ہوئے جاتے ہیں حواس
ایسے میں میری خودی کام تو کرنے سے رہی
ہر طرف ہے چمن زار پہ ظلموں کا حصار
کوئی معصوم کلی آج نکھرنے سے رہی
گھیر رکھا ہے ہر اک سمت سے طوفانوں نے
میری کشتی تو کبھی پار اترنے سے رہی
صادقؔ اس موڑ پہ لے آتے ہیں حالات ہمیں
موجِ احساس ذرا آج ٹھہرنے سے رہی
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment