Friday, 29 January 2016

ہم شعلہ نفرت کو بجھانے میں لگے ہیں

ہم شعلۂ نفرت کو بجھانے میں لگے ہیں
وہ ہیں کہ، فقط آگ لگانے میں لگے ہیں
انسان کا غم بانٹنے نکلے تھے جو گھر سے
وہ لوگ بھی اب کھانے کمانے میں لگے ہیں
اس شہر میں انصاف طلب کیجیے کس سے
منصف جہاں قاتل کو بچانے میں لگے ہیں
اے گردشِ وقت ایک نظر ان کی طرف بھی 
کچھ لوگ ابھی پینے پلانے میں لگے ہیں
کیا لوگ ہیں یہ کہنہ روایات کے حامی
گرتی ہوئی دیوار اٹھانے میں لگے ہیں
ان کا رخِ روشن بھی دِکھا دے کوئی ان کو
آئینہ جو اوروں کو دکھانے میں لگے ہیں

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment