ہم شعلۂ نفرت کو بجھانے میں لگے ہیں
وہ ہیں کہ، فقط آگ لگانے میں لگے ہیں
انسان کا غم بانٹنے نکلے تھے جو گھر سے
وہ لوگ بھی اب کھانے کمانے میں لگے ہیں
اس شہر میں انصاف طلب کیجیے کس سے
اے گردشِ وقت ایک نظر ان کی طرف بھی
کچھ لوگ ابھی پینے پلانے میں لگے ہیں
کیا لوگ ہیں یہ کہنہ روایات کے حامی
گرتی ہوئی دیوار اٹھانے میں لگے ہیں
ان کا رخِ روشن بھی دِکھا دے کوئی ان کو
آئینہ جو اوروں کو دکھانے میں لگے ہیں
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment