Friday 29 January 2016

حیا و شرم سے چپ چاپ کب وہ آ کے چلے

 حیا و شرم سے چپ چاپ کب وہ آ کے چلے

اگر چلے تو مجھے سیدھیاں سنا کے چلے

وہ شاد شاد دمِ صبح مسکرا کے چلے

ستم تو یہ ہے کہ مجھ کو گلے لگا کے چلے

یہ چال ہے کہ قیامت ہے اے بُتِ کافر

خدا کرے کہ یوں ہی سامنے خدا کے چلے

ہمارے دُودِ جگر میں ذرا نہیں طاقت

یہ ابرِ تر ہے کہ گھوڑے پہ جو ہوا کے چلے

مِرے بُجھائے بُجھے گی نہ یہ لگی دل کی

بُجھاتے جاؤ کہاں آگ تم لگا کے چلے

تمہیں ہو چور بھری بزم میں اِدھر آؤ

نظر چُرائے ہوئے دل کہاں چُرا کے چلے

ہوئے ہیں شادی و غم اختیار میں ان کے

کبھی ہنسا کے چلے وہ کبھی رُلا کے چلے

ہماری خاک کی ڈھیری تمہارے کوچے میں

ذرا لگی تھی کہ جھونکے وہیں ہوا کے چلے

وہ مہماں نہیں ایسے کہ جائیں خالی ہاتھ

کہ جب چلے تو مِرے دل کو لے لِوا کے چلے

طریقِ عشق میں سُوجھا کسے نشیب و فراز

وہ کیا چلے جو سہارے پہ رہنما کے چلے

نہیں ہے دل کو مِرے صرصر فنا سے خطر

یہ کشتی ایسی ہے جو سامنے ہوا کے چلے

بچائیں دل کو کہاں تک ہم ایسے تیروں سے

نِگہ نِگہ کے چلے ہیں ادا ادا کے چلے

دکھائی دی ہمیں راہِ عدم جو تیرہ و تار

ہم اپنی مشعلِ داغِ جگر جلا کے چلے

پڑی جو اس کی نظر دل تڑپ کے یوں نکلا

کہ جس طرح کوئی نخچیر تیر کھا کے چلے

خبر نہیں کہ کوئی تاک میں بھی بیٹھا ہے

یہ جھٹپٹے میں کہاں آپ منہ چھپا کے چلے

اِدھر تو آؤ مجھے دو دو باتیں کرنی ہیں

یہ کیا کہ دُور سے صورت فقط دکھا کے چلے

وہ رحم کھائیں گے کیا داغ! ہوش میں آؤ

تم ان کے آگے بُرا حال کیوں بنا کے چلے​


داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment