Wednesday, 27 January 2016

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد 
سینے میں ہو گی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد
کل اس سے ہم نے ترکِ ملاقات کی، تو کیا
پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment