کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہو گی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کل اس سے ہم نے ترکِ ملاقات کی، تو کیا
پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment