Wednesday 27 January 2016

سایہ کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں

سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں
تنہائی! بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں
اِک موج بھی مل جائے اگر مجھ کو صِلے میں
گِرتے ہوئے دریا کو سمندر سے نکالوں 
تیشے سے بجاتا پھروں میں بربطِ کہسار
نغمے جو مِرے دل میں ہیں، پتھر سے نکالوں
لَو تیز نہیں کچھ مِری آنکھوں ہی کی شاید
مطلب یہی بے نُورئ منظر سے نکالوں
بدلے نہ کوئی رنگ تِرا حسنِ خموشی
میں بات کے پہلو تِرے تیور سے نکالوں
توبہ نے جگایا مِرے اندر کا شرابی
اب فال بھی ٹوٹے ہوئے ساغر سے نکالوں
سوچوں کے بیاباں میں لیے پھِرتا ہے مجھ کو
کیا ذہن بھی سودا ہے، جسے سر سے نکالوں
اِک نسلِ سخن مجھ میں ہے آباد مظفرؔ
صورت نئی ہر لفظ کے اندر سے نکالوں

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment