Thursday, 28 January 2016

کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی

کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی
ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گزر گئی
عمرِ رواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اک برق کوند کر اِدھر آئی، اُدھر گئی
اس سے تو تھا مِرے لیے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی
اے شادؔ کیا کہوں تِری شیریں بیانیاں
جو بات تُو نے کی مِرے دل میں اتر گئی

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment