کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی
ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گزر گئی
عمرِ رواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اس سے تو تھا مِرے لیے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی
اے شادؔ کیا کہوں تِری شیریں بیانیاں
جو بات تُو نے کی مِرے دل میں اتر گئی
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment