دوست بھی بن کے عدالت کی گواہی آئے
اب تِرے حق میں جو آئے، تو خدا ہی آئے
میں نے اپنے لیے اے دوست یہ مانگی ہے دعا
دشمنوں کے بھی لیے ۔۔ لب پہ دعا ہی آئے
اس کی آواز میں ہے اس کے بدن کی خوشبو
دیکھ کر لوگوں کو خوشحال، پریشان ہیں لوگ
شہر والوں پہ نہ ایسی بھی تباہی آئے
تھا گماں ہم کو بہت ضبط کی دولت پہ مگر
آج وہ بھی تِرے کوچے میں گنوا ہی آئے
آج بھی ہو گی تسکین انا کی شاہدؔ
آج بھی آپ اسے جا کے رُلا ہی آئے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment