Tuesday 26 January 2016

کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے

کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے 
اب دیکھیے کس کو شرفِ دار ملے ہے
ہوتی ہے خرد مصلحت اندیش ہی، لیکن 
محرومِ خرد ۔۔۔ مستحقِ دار ملے ہے
جو ظرف کے پیکر ہیں وہ ہوتے ہیں سرافراز 
کم ظرف کو کب حوصلۂ دار ملے ہے
مژدہ ہو وفاؤں کو، جنوں کو ہو مبارک 
ہر گام پہ رسمِ رسن و دار ملے ہے 
آنکھوں پہ یہ پلکیں ہیں کہ بے نام صلیبیں
جو اشک بھی ٹپکے ہے سرِ دار ملے ہے
صادقؔ جو شناسائے حقیقت ہے اسے دیکھ 
آسودۂ ہر سلسلہ وار ملے ہے 

صادق اندوری

No comments:

Post a Comment