کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے
اب دیکھیے کس کو شرفِ دار ملے ہے
ہوتی ہے خرد مصلحت اندیش ہی، لیکن
محرومِ خرد ۔۔۔ مستحقِ دار ملے ہے
جو ظرف کے پیکر ہیں وہ ہوتے ہیں سرافراز
مژدہ ہو وفاؤں کو، جنوں کو ہو مبارک
ہر گام پہ رسمِ رسن و دار ملے ہے
آنکھوں پہ یہ پلکیں ہیں کہ بے نام صلیبیں
جو اشک بھی ٹپکے ہے سرِ دار ملے ہے
صادقؔ جو شناسائے حقیقت ہے اسے دیکھ
آسودۂ ہر سلسلہ وار ملے ہے
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment