ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگ زار مگر درمیان تھا
لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں
جھپکی جو آنکھ،۔ سر پہ نیا آسمان تھا
کہنے کو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن
کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بدزبان تھا
شعلے اگلتے، تیر برستے تھے چرخ سے
سایہ تھا پاس میں،۔ نہ کوئی سائبان تھا
منہ پھٹ تھا بے لگام تھا رسوا تھا ڈھیٹ تھا
جیسا بھی تھا وہ دوستو! محفل کی جان تھا
عادل منصوری
No comments:
Post a Comment