Sunday 31 January 2016

ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا

ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگ زار مگر درمیان تھا
لمحے کے ٹوٹنے کی صدا سن رہا تھا میں
جھپکی جو آنکھ،۔ سر پہ نیا آسمان تھا
کہنے کو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
پوچھو تو دوسری ہی طرف اپنا دھیان تھا
اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن
کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بدزبان تھا
شعلے اگلتے، تیر برستے تھے چرخ سے
سایہ تھا پاس میں،۔ نہ کوئی سائبان تھا
منہ پھٹ تھا بے لگام تھا رسوا تھا ڈھیٹ تھا
جیسا بھی تھا وہ دوستو! محفل کی جان تھا

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment