ان کا دعویٰ، ان کی عدالت اور انہی کی تعزیرات
ان کا دوست زمانہ سارا، اپنا دوست خدا کی ذات
اے یارو! اس فصل میں اپنا جوش جنوں رسوا نہ کرو
گلشن گلشن خاک اڑتی ہے پھول نہ غنچے ڈال نہ پات
مہر و مروت میں وہ ہمارے پتھر کے بت اچھے تھے
آپ ہی آپ پِٹے جاتے ہیں، اپنے پیادے، اپنے فِیل
ہم کیوں کھیلیں اس بازی میں ہاتھ ہمارے جیت نہ مات
ہم نے مانا ۔۔ اک انٹی میں یوسفِؑ کنعاں ملتا ہے
وقت کے بوسیدہ چرخے پر امیدوں کا سوت نہ کات
انشاؔ صاحب صبح ہوئی ہے، اٹھو بھی، اب کوچ کرو
اس منزل پہ قافلے والے رکتے ہیں بس رات کی رات
ابن انشا
No comments:
Post a Comment