Monday 25 January 2016

جنگل جنگل شوق سے گھومو دشت کی سیر مدام کرو

جنگل جنگل شوق سے گھومو، دشت کی سیر مدام کرو
انشاؔ جی! ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو
اشکوں سے اپنے دل کی حکایت دامن پر ارقام کرو
عشق میں جب یہی کام ہے یارو! لے کے خدا کے نام کرو
کب سے کھڑے ہیں بر میں خراجِ عشق لیے سرِ راہگزر
ایک نظر سے سادہ رخو! ہم سادہ دلوں کو غلام کرو
دل کی متاع تو لُوٹ رہے ہو، حسن کی دی ہے زکوٰاۃ بھی
روزِ حساب قریب ہے لوگو! کچھ تو ثواب کا کام کرو
میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشاؔ میرؔ کی تبعت بھی ہے ضرور
شام کو رو رو صبح کرو، اب صبح کو رو رو شام کرو

ابن انشا

No comments:

Post a Comment