ملالِ دل سے، علاجِ غمِ زمانہ کِیا
ضیائے مہر سے روشن چراغِ خانہ کِیا
سحر ہوئی تو وہ آئے لٹوں کو چھٹکاتے
ذرا خیالِ پریشانئ صبا نہ کِیا
ہزار شکر کہ ہم مصلحت شناس نہ تھے
وہ جس کے لطف میں بیگانگی بھی شامل تھی
اسی نے آج گزر دل سے محرمانہ کِیا
وہ بزمِ حرف ہو یا محفلِ سماعِ خیال
جہاں بھی وجد کِیا ہم نے بے ترانہ کِیا
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment