کیا کیا ضرورتوں سے فزوں کھا گئی ہوا
کم پڑ گئی خرد،۔ تو جنوں کھا گئی ہوا
اب انہدامِ قصرِ تخیل کا وقت ہے
گن گن کے ایک ایک ستوں کھا گئی ہوا
ہم تو صدا سے خاک تھے، خوراکِ خاک تھے
کیا داستانِ عہدِ گزشتہ رقم کریں
وہ خواب، وہ نشہ، وہ فسوں کھا گئی ہوا
صرصر صفت خیال ہیں، لب سوختہ سوال
ہر آدمی کا سوزِ دروں کھا گئی ہوا
ایسا لگا کہ اس نے تو کھایا ہی کچھ نہیں
اخترؔ ہمیں تو موج میں یوں کھا گئی ہوا
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment