کسی کا یوں تو ہُوا کون عمر بھر، پھر بھی
یہ حسن وعشق تو دھوکا ہے سب، مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ ۔۔۔ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ، تیری رہگزر پھر بھی
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر
جھپک رہی ہے زمان و مکان کی آنکھیں
مگر ہے قافلہ، آمادۂ سفر پھر بھی
شبِ فِراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شامِ بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشفِ حیات و ممات
یہ حسن وعشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
لٹا ہوا چمنِ عشق ہے، نگاہوں کو
دِکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کیے تِرے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تِری نظر پھر بھی
ہو بے نیازِ اثر بھی کبھی تِری مٹّی
وہ کیمیا ہی سہی، رہ گئی کسر پھر بھی
لپٹ گیا تِرا دیوانہ گرچہ منزل سے
اڑی اڑی سی ہے کچھ خاکِ رہگزر پھر بھی
تِری نِگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگِ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
غمِ فراق کے کُشتوں کا حشر کیا ہو گا
یہ شامِ ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گرانبارئ حیات نہ پوچھ
اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ دردِ سر پھر بھی
سِتم کے رنگ ہیں ہر اِلتفاتِ پنہاں میں
کرم نما ہیں تِرے زور سر بسر پھر بھی
خطا معاف! تِرا عفْو بھی ہے مثلِ سزا
تِری سزا میں ہے اک شانِ درگزر پھر بھی
اگرچہ بے خودئ عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ، کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment