کچھ جنوں کی داستاں، کچھ آگہی کی بات ہے
کیا کہیں لمحوں میں ہم جو اک صدی کی بات ہے
چشمِ ساقی کا، نہ صہبا کا، نہ پیمانے کا ذکر
مے کدہ در مے کدہ، اب تشنگی کی بات ہے
انگنت افراد پر یاں حکمراں ہیں چند لوگ
سن رہی ہے اس لیے دنیا نہایت شوق سے
میرے غم کی بات ہر اک آدمی کی بات ہے
کیا حکایت خلد کی ۔۔ کیا قصۂ نارِ جحیم
اک تِری خوشنودی کی، اک برہمی کی بات ہے
ہیں فقیروں کی صفوں میں ظلِ سبحانی بھی آج
درس عبرت کا، زوالِ خسروئی کی بات ہے
کوئی مجبوری ہے اس کی یا نیا دامِ فریب
دشمنِ جانی کے لب پر دوستی کی بات ہے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment