Sunday 31 January 2016

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا

ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
ایک مشتِ خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
وارداتِ قلب لکھی ہم نے فرضی نام سے
اور ہاتھوں پاتھ اس کو خود ہی لے جا کر دیا
اس کی ناراضی کا سورج جب سوا نیزے پہ تھا
اپنے حرفِ عجز ہی نے سر پہ سایہ کر دیا
دنیا بھر کی خاک کوئی چھانتا پھرتا ہے اب
آپ نے در سے اٹھا کر کیسا رسوا کر دیا
اب نہ کوئی خوف دل میں اور نہ آنکھوں میں امید
تُو نے مرگِ ناگہاں! بیمار اچھا کر دیا
جانے کس کے منتظر بیٹھے ہیں جھاڑو پھیر کر
دل سے ہر خواہش کو عادلؔ ہم نے چلتا کر دیا

عادل منصوری

No comments:

Post a Comment