Thursday, 28 January 2016

یہ خواب سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس، ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں ‌تھی، پلٹ آئی
تِری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھُو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی ۔۔۔ پلٹ آئی
خبر نہیں وہ مِرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مِرے ساتھ ہی پلٹ آئی
کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment