Thursday 28 January 2016

در دوست پر ہوں جھکائے سر مرے دل کو شغل نیاز ہے

درِ دوست پر ہوں جھکائے سر مِرے دل کو شغلِ نیاز ہے
نہ قعود ہے نہ قیام ہے ۔۔۔ یہ عجب طرح کی نماز ہے
جو کہوں تو ختم نہ ہو سکے جو سے کو ملی تو خلش رہے
تِرے دونوں گیسوؤں کا بیاں مِری زندگی زندگی سے مراد ہے
کوئی بات اٹھا کر نہ رکھی غرض، تھی نگاہِ شوق وہ بد بلا
عجب اس کا کیا جو وہ بخش دے ۔۔ کہ وہ رحیم بندہ نواز ہے
کہیں ایک وعدہ وصال کا ۔۔۔ جو وفا ہُوا بھی تو کیا ہُوا
مجھے حیف اپنی نگہ یہ ہے ۔۔ انہیں اپنے جلوہ پہ ناز ہے
نہیں مدتوں سے وہ ولولہ ۔۔ دلِ زار سینہ میں جل گیا
فقط ایک ڈھیر ہے راکھ کا، نہ وہ سوز ہے نہ گداز ہے
جو کہیں حریف وہ کہنے دے کہ مقام بھی ہے سکوت کا
کہاں سمجھیں اہلِ قریہ اسے ۔ کہ یہ شادؔ بانگِ حجاز ہے

شاد عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment