وہ لوگ ہی ہر دور میں محبوب رہے ہیں
جو عشق میں طالب نہیں مطلوب رہے ہیں
طوفان کی آواز تو آتی نہیں، لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوب رہے ہیں
ان کو نہ پکارو غمِ دوران کے لقب سے
ہم بھی تِری صورت کے پرستار ہیں، لیکن
کچھ اور بھی چہرے ہمیں مرغوب رہے ہیں
الفاظ میں اظہارِ محبت کے طریقے
خود عشق کے نظروں میں بھی معیوب رہے ہیں
اس عہدِ بصیرت میں بھی نقاد ہمارے
ہر ایک بڑے نام سے مرعوب رہے ہیں
اتنا بھی نہ گھبراؤ نئی طرز ادا سے
ہر دور میں بدلے ہوئے اسلوب رہے ہیں
جاں نثار اختر
No comments:
Post a Comment