آج مسرورِ تمنا ہو کہ قربت بولی
کل اگر چشمِ دغاباز میں فرقت بولی؟
میں نے پلکوں سے تِرے انگ تراشے برسوں
تب کہیں جا کے تِرے حسن کی مورت بولی
لب تو خاموش ہیں، خاموش رہیں گے، لیکن
ایسا کیا پوچھ لیا وقت سے ہم نے آخر
لاکھ چاہا بھی مگر کوئی نہ ساعت بولی
میں نے اک لفظ محبت ہی پکارا تھا ابھی
چار جانب سے مِرے شہر میں نفرت بولی
سالہا سال غمِ یار نے سینچا یارو
تب کہیں لفظ کے پیکر میں فصاحت بولی
خود کو کرنا ہی پڑا زینؔ حوالے اس کے
شب کی دہلیز پہ جب درد کی لذت بولی
اشتیاق زین
No comments:
Post a Comment