Thursday 28 January 2016

شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا

شبنم کو ریت پھول کو کانٹا بنا دیا
ہم نے تو اپنے باغ کو صحرا بنا دیا
اس اونچ نیچ پر تو ٹھہرتے نہیں تھے پاؤں
کس دستِ شوق نے اسے دنیا بنا دیا
کن مٹھیوں نے بیج بکھیرے زمین پر
کن بارشوں نے اس کو تماشا بنا دیا
سیراب کردیا تِری موجِ خرام نے
رکھا جہاں قدم ۔۔ وہاں دریا بنا دیا
اک رات چاندنی مِرے بستر پہ آئی تھی
میں نے تراش کر۔۔ تِرا چہرہ بنا دیا
پوچھے اگر کوئی تو اسے کیا بتاؤں میں
دل کیا تھا، تیرے غم نے اسے کیا بنا دیا

احمد مشتاق

No comments:

Post a Comment