Thursday 28 January 2016

وہ نہ جو قید وصال میں آیا جس نے جو چاہا سمجھا

وہ نہ جو قیدِ وصال میں آیا، جس نے جو چاہا سمجھا
ہم نے اسے محبوب بتایا، زاہد اسے خدا سمجھا
ایک ہی جل کے روپ تھے سارے، ساگر، دریا بادل
ناں اڑتا بادل یہ جانا ۔۔۔ ناں بہتا دریا سمجھا
آخر شب محمل بھی گزرا، محمل کے پیچھے بھی کوئی
میٹھی نیند میں سویا صحرا، پُروا کا جھونکا سمجھا
چلمن کے پیچھے کی چھایا، رنگوں کا طوفان بنی
اس نے تو چہرہ جھلکایا، دیکھنے والا کیا سمجھا
ایک ہی ذات کے دونوں پرتو، نُور اور ظُلمت تُو اور ہم
ہم تو ہر حالت میں تیرے، تُو بھی ہمیں اپنا سمجھا

ابن انشا

No comments:

Post a Comment