وہی ہے گیت، جزیرے میں جل پری وہی ہے
یہ خواب اب بھی وہی ہے،۔ بعینہ وہی ہے
وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی
جو بہہ رہی ہے تہِ آب روشنی وہی ہے
وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی
لرزتا دیکھ کے عکسِ زمردیں اپنا
گیاہ رنگ پہاڑی کی دلبری وہی ہے
اسی طرح ہے شبِ آبنوس فام کی لو
طلائی صبح کی پوشاک آتشی وہی ہے
یہ چاند ابر میں، غرقاب آئینے کی طرح
طلسم وقت وہی، شب کی ساحری وہی ہے
ہر ایک رنج سے بے فکر پھوٹتے چشمے
جو مجھ میں پھول کھلا دے، تِری ہنسی وہی ہے
اڑان بھرتی ہوئی رنگ رنگ بولیوں کو
سمجھ رہا ہوں کہ میری بھی سرخوشی وہی ہے
بدل چکے ہیں بیک خواب میرے سب ساتھی
نہ دوستی وہی ہے،۔ اور نہ دشمنی وہی ہے
ہوا سے رِستی ہوئی بھیگے جسم کی خوشبو
میں جانتا ہوں،۔ یہ مانوس اجنبی وہی ہے
میں تیرے ساتھ ہوں،۔ لیکن بہت اکیلا ہوں
یہ ایک بات نئی ہے، پہ دوسری وہی ہے
بچھڑ کے جاتے ہوئے سرمئ پرندے، سن
میں ہمنوا ہوں تِرا، میری ہُوک بھی وہی ہے
میں خواہ چاہوں نہ چاہوں، مجھے پلٹنا ہے
پسند ہو کہ نہ ہو، میری بے بسی وہی ہے
کنار آب جھکے شاخچوں کی طرح سعودؔ
میں خوش ہوں اور مِری آنکھ میں نمی وہی ہے
سعودعثمانی
No comments:
Post a Comment