Monday 25 January 2016

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی 
روشن اسی چراغ سے محفل ہے آج بھی 
اب بھی ہے کہکشاں تیرے پرتو سے راہِ شوق 
پُر نُور شام جادواں منزل ہے آج بھی 
اب بھی حیاتِ شوق کی کشتی ہے تیز رو 
ہر موج ایک امید کا ساحل ہے آج بھی 
اب بھی ہے ایک کیف امیدِ کرم کے ساتھ 
ایک لطفِ انتظار میں شامل ہے آج بھی 
اب بھی ہے مجھ کو عشق کی حکمت پہ اعتماد 
دل کو امیدِ حلِ مسائل ہے آج بھی 
اب بھی ہے ہر نگاہ تیری روحِ آرزو 
تُو جانِ شوق بن کے مقابل ہے آج بھی 
وہ دل کے مجھ کو ناز رہا جس پہ مدتوں 
اے دوست! تیرے ناز کے قابل ہے آج بھی

جاں نثار اختر

No comments:

Post a Comment