ہمیں کیا ہُوا جو بدل گئے، بڑی حیرتوں کا مقام ہے
کہ وہی فلک ہے وہی زمیں وہی صبح ہے وہی شام ہے
میں نثار اپنے خیال پر کہ بغیر مئے کے ہیں مستیاں
نہ تو خُم ہے پیشِ نظر کوئی نہ سبُو ہے پاس نہ جام ہے
بڑی مشکلوں سے ہُوا ہے حل، یہ کتابِ عمر کا مسئلہ
کسی خود پسند کے ہاتھ میں نہ پڑے کوئی یہ دعا کرو
شبِ عمر اپنی بسر ہوئی، وہاں صبح کی ابھی شام ہو
وہ کرے ذلیل، کرے خجل ہوں سے بلا اس سے خرابیاں
کہو شوق کو نہ کلامِ بد، دلِ عاشق اس کا مقام ہے
کوئی مر گیا تو یہ کہتے ہیں کہ فلاں نے نقلِ مکاں کِیا
یہی قول مان لیں ہم اگر ۔۔۔ تو وجودِ جسم دوام ہے
اسی سوچ میں ہے دلِ حزیں کہ قیامت آنے کو آئے بھی
ہوئے ان سے طالبِ دِید ہم، وہ کہیں گے مجمعِ عام ہے
کہیں بے دہن ہے تِرا لقب، کہیں کم سخن کا خطاب ہے
غرض اصل بات یہ کھل گئی کہ سکوت ہی میں کلام ہے
میں فدائے ساقئ مہ لقا، یہی مئے کشی کا ہی مسئلہ
وہی حکم دے تو حلال ہے، وہی روک دے تو حرام ہے
سنوں میں نصیحتِ بے محل کروں شادؔ ترک شراب کو
نہ خدا ہے واعظِ ہرزہ گو، نہ رسول ہے، نہ امام ہے
شاد عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment