Friday 22 January 2016

دنیا لٹی تو دور سے تکتا ہی رہ گیا

دنیا لٹی ۔۔ تو دور سے تکتا ہی رہ گیا ​
آنکھوں میں گھر کے خواب کا نقشا ہی رہ گیا ​
اس کے بدن کا لوچ تھا دریا کی موج میں ​
ساحل سے میں بہاؤ کو تکتا ہی رہ گیا ​
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی ​
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا ​
وہ اپنا عکس بھول کے جانے لگا تو میں ​
آواز دے کے اس کو بلاتا ہی رہ گیا ​
ہمراہ اس کے ساری بہاریں چلی گئیں ​
میری زباں پہ پھول کا چرچا ہی رہ گیا ​
کچھ اس ادا سے آ کے ملا ہم سے اشکؔ وہ ​
آنکھوں میں جذب ہو کے سراپا ہی رہ گیا ​
ابراہیم اشک ​

No comments:

Post a Comment