کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے
الہٰی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے
تمام شہر کے چہروں کو پڑھنے نکلا ہوں
اے میرے دوست! مِرے ہاتھ میں کتاب نہ دے
غزل کے نام کو۔۔۔ بدنام کر دیا اس نے
میں تجھ کو دیکھ کے تیرے بھرم کو جان سکوں
اک آدمی ہوں ذرا سوچ ایسی تاب نہ دے
وہ مل نہ پائے اگر مجھ کو اس زمانے میں
تو ایسی حور کا دنیا میں کوئی خواب نہ دے
یہ میرے فن کی طلب ہے کہ دل کی بات کہوں
وہ اشکؔ دے کہ زمانے کو انقلاب نہ دے
ابراہیم اشک
No comments:
Post a Comment