گیسوؤں کی برہمی اچھی لگے
یہ حسیں آوارگی ۔۔ اچھی لگے
اس کے ہونٹوں کی ہنسی اچھی لگے
اَدھ کھلی سی وہ کلی ۔۔ اچھی لگے
پیاس کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
ہم نشیں ہے جب سے وہ جانِ غزل
دن بھی اچھا، رات بھی اچھی لگے
خوب ہے ہر چند راہِ راستے
گاہے گاہے کَجروی اچھی لگے
لوگ تو رنگینیوں پر ہیں فدا
مجھ کو تیری سادگی اچھی لگے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment