اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو
میں اگر روٹھ گیا ہوں تو منا لو مجھ کو
سوچ کے گہرے سمندر سے نکالو مجھ کو
دم گھٹا جائے ہے اب کوئی بچا لو مجھ کو
میں اگر پھول نہیں ہوں تو شرارہ بھی نہیں
اب تو لے دے کے تمہِیں ایک سہارا ہو مِرا
چھوڑ کر جاؤ نہ یادوں کے اجالو مجھ کو
لب پہ آیا جو کوئی حرفِ گِلہ تو کہنا
شمع کی طرح سرِ بزم جلا لو مجھ کو
کل یہی وقت کہیں میرا طلبگار نہ ہو
عہدِ حاضرکی امانت ہوں سنبھالو مجھ کو
آؤں نیچے تو سلامت نہ رہے میرا وجود
اتنا اونچا مِرے یارو! نہ اچھالو مجھ کو
شکوۂ درد ہی کرتے رہے ہم لوگ حفیظؔ
درد کہتا رہا ۔۔ سنگیت میں ڈھالو مجھ کو
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment