Sunday 24 January 2016

اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو

اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو
میں اگر روٹھ گیا ہوں تو منا لو مجھ کو
سوچ کے گہرے سمندر سے نکالو مجھ کو
دم گھٹا جائے ہے اب کوئی بچا لو مجھ کو
میں اگر پھول نہیں ہوں تو شرارہ بھی نہیں
اپنے دامن میں بلا خوف چھپا لو مجھ کو
اب تو لے دے کے تمہِیں ایک سہارا ہو مِرا
چھوڑ کر جاؤ نہ یادوں کے اجالو مجھ کو
لب پہ آیا جو کوئی حرفِ گِلہ تو کہنا
شمع کی طرح سرِ بزم جلا لو مجھ کو
کل یہی وقت کہیں میرا طلبگار نہ ہو
عہدِ حاضرکی امانت ہوں سنبھالو مجھ کو
آؤں نیچے تو سلامت نہ رہے میرا وجود
اتنا اونچا مِرے یارو! نہ اچھالو مجھ کو
شکوۂ درد ہی کرتے رہے ہم لوگ حفیظؔ
درد کہتا رہا ۔۔ سنگیت میں ڈھالو مجھ کو

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment