ایک بے نام سی وحشت نے مجھے گھیر لیا
خوف نے درد نے حسرت نے مجھے گھیر لیا
بس اسی موڑ سے مڑنا تھا مجھے تیری طرف
ہائےکس جا پہ ضرورت نے مجھے گھیر لیا
یہ جو بے وجہ مخالف ہوا جاتا ہے نگر
کوئی بے نام کشش تھی جو مجھے مار گئی
ایک معمولی سی صورت نے مجھے گھیر لیا
آج بھی راہ بدل کر میں چلا تھا، لیکن
آج بھی اس کی محبت نے مجھے گھیر لیا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment