ضائع کرتے تھے ملاقاتوں کو
ہم سمجھتے ہی نہ تھے باتوں کو
ان کو عادت ہے مِری آنکھوں کی
کون سمجھائے گا برساتوں کو
کتنے معصوم ہیں وہ لوگ کہ جو
وہ مجھے دام میں لانے کے لیے
کام میں لایا مداراتوں کو
ہم کہاں مانتے ہیں ذاتوں کو
پاس رکھو اپنی سبھی ساداتوں کو
آستینوں پہ توجہ دے کر
تاڑ لیتا ہوں کئی گھاتوں کو
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment