کچھ دور ہمارے ساتھ چلو، ہم دل کی کہانی کہہ دیں گے
سمجھے نہ جسے تم آنکھوں سے، وہ بات زبانی کہہ دیں گے
پھولوں کی طرح جب ہونٹوں پر، اک شوخ تبسم بکھرے گا
دھیرے سے تمہارے کانوں میں اک بات پرانی کہہ دیں گے
اظہارِ وفا تم کیا سمجھو۔۔۔ اقرارِ وفا تم کیا جانو
موسم تو بڑا ہی ظالم ہے ۔۔۔ طوفان اٹھاتا رہتا ہے
کچھ لوگ مگر اس ہلچل کو بدمست جوانی کہہ دیں گے
جو پیار کریں گے، جانیں گے، ہر بات ہماری مانیں گے
جو خود نہ جلے ہوں الفت میں وہ آگ کو پانی کہہ دیں گے
جب پیاس جواں ہو جائے گی، احساس کی منزل پائے گی
خاموش رہیں گے اور تمہیں ہم اپنی کہانی کہہ دیں گے
اس دل میں ذرا تم بیٹھو تو، کچھ حال ہمارا پوچھو تو
ہم سادہ دل ہیں اشکؔ مگر ہر بات پرانی کہہ دیں گے
ابراہیم اشک
No comments:
Post a Comment