تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
چلے گئے ۔۔ تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
لہو لہو کے سوا ۔۔ کچھ نہ دیکھ پاؤ گے
سمیٹ لیجیے بھیگے ہوئے ہر اک پل کو
بکھر گئے جو یہ موتی تو رائیگاں ہوں گے
اچاٹ دل کا ٹھکانہ ۔۔ کسی کو کیا معلوم
ہم اپنے آپ سے بچھڑے تو پھر کہاں ہوں گے
یہ بزمِ یار ہے ۔۔۔ قربان جائیے اس پر
سنا ہے اشکؔ یہاں دل سبھی جواں ہوں گے
ابراہیم اشک
No comments:
Post a Comment