Friday 22 January 2016

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے

تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے 
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے 
چلے گئے ۔۔ تو پکارے گی ہر صدا ہم کو 
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
لہو لہو کے سوا ۔۔ کچھ نہ دیکھ پاؤ گے
ہمارے نقشِ قدم اس قدر عیاں ہوں گے 
سمیٹ لیجیے بھیگے ہوئے ہر اک پل کو
بکھر گئے جو یہ موتی تو رائیگاں ہوں گے 
اچاٹ دل کا ٹھکانہ ۔۔ کسی کو کیا معلوم 
ہم اپنے آپ سے بچھڑے تو پھر کہاں ہوں گے
یہ بزمِ یار ہے ۔۔۔ قربان جائیے اس پر
سنا ہے اشکؔ یہاں دل سبھی جواں ہوں گے 

ابراہیم اشک ​

No comments:

Post a Comment