Friday, 22 January 2016

پھر اعتبار عشق کے قابل نہیں رہا

پھر اعتبارِ عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تِری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانئ نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلشِ دل نہیں رہا
موجیں ابھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
حدِ نگاہ تک کہیں ساحل نہیں رہا
کیا کہیے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اس کی رہ گئی ہے مگر دل نہیں رہا

دل شاہجہانپوری

No comments:

Post a Comment