پھر اعتبارِ عشق کے قابل نہیں رہا
جو دل تِری نظر سے گرا دل نہیں رہا
نشتر چبھوئے اب نہ پشیمانئ نگاہ
مجھ کو تو شکوۂ خلشِ دل نہیں رہا
موجیں ابھار کر مجھے جس سمت لے چلیں
کیا کہیے اب مآل محبت کی سرگزشت
یاد اس کی رہ گئی ہے مگر دل نہیں رہا
دل شاہجہانپوری
No comments:
Post a Comment