بارِ احساں اٹھائے جس تِس کا
دل اسیرِ طلب ہوا کس کا
ایک پل میں گزر گئی وہ شام
صبح سے انتظار تھا جس کا
یہ دعائے شفا ہے، یا کچھ اور
ضبط اتنا نہیں ہے اشکوں پر
کچھ خیال آ گیا تھا مجلس کا
پھر سے خیمے جلے ہیں اور سرِ شام
بین ہے اپنے اپنے وارث کا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment