Monday, 2 May 2016

صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

صحن کو چمکا گئی، بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی
دھوپ ہے اور زرد پھولوں کے شجر ہر راہ پر
اک ضیائے زہر سب سڑکوں کو پیلا کر گئی
کچھ تو اسکے اپنے دل کا درد بھی شامل ہی تھا
کچھ نشے کی لہر بھی اس کو سریلا کر گئی
بیٹھ کر میں لکھ گیا ہوں دردِ دل کا ماجرا
خون کی اک بوند کاغذ کو رنگیلا کر گئی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment