سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کِواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہِ آئینہ معلوم،۔۔ عکس نا معلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گِرد بھی پانی زمیں کے اندر بھی
نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اس بت کا جی برا ہی نہ ہو
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیرؔ
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment