Tuesday 3 May 2016

ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں

ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
مگر جب راستوں میں چاند ابھرا چل پڑے ہیں
زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک
ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں
مِرا بستر کسی فٹ پاتھ پر جا کر لگا دو
مِرے بچے ابھی سے مجھ سے ترکہ مانگتے ہیں
بلند آواز دے کر دیکھ لو کوئی تو ہو گا
جو گلیاں سو گئی ہیں تو پرندے جاگتے ہیں
کوئی تفصیل ہم سے پوچھنا ہو پوچھ لیجے
کہ ہم بھی آئینے کے سامنے برسوں رہے ہیں
ابھی اے داستاں گو! داستاں کہتا چلا جا
ابھی ہم جاگتے ہیں جنبشِ لب دیکھتے ہیں
ہوا اپنے ہی جھونکوں کا تعاقب کر رہی ہے
کہ اڑتے پتے پھر آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں
ہمیں بھی اس کہانی کا کوئی کردار سمجھو
کہ جس میں لب پہ مہریں ہیں دریچے بولتے ہیں
ادھر سے پانیوں کا ریلا کب کا جا چکا ہے
مگر بچے درختوں سے ابھی چمٹے ہوئے ہیں
مجھے تو چلتے رہنا ہے کسی جانب بھی جاؤں
کہ اخترؔ میرے قدموں میں ابھی تک راستے ہیں

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment