جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
وہ میرا کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی آشنا تھا بہت
میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا، بہت کم، مگر صدا تھا بہت
زمیں کے سینے میں سورج کہاں سے اترے ہیں
مجھے جو دیکھا تو کاغذ کو پرزے پرزے کیا
وہ اپنی شکل کے خاکے بنا رہا تھا بہت
میں اپنے ہاتھ سے نکلا تو پھر کہیں نہ ملا
زمانہ میرے تعاقب میں بھی گیا تھا بہت
شکست و ریخت بدن کی اب اپنے بس میں نہیں
اسے بتاؤں کہ وہ رمز آشنا تھا بہت
بساط اس نے الٹ دی نہ جانے سوچ کے کیا
ابھی تو لوگوں میں جینے کا حوصلہ تھا بہت
عجب شریکِ سفر تھا کہ جب پڑاؤ کیا
وہ میرے پاس نہ ٹھہرا مگر رکا تھا بہت
سحر کے چاک گریباں کو دیکھنے کے لیے
وہ شخص صبح تلک شب کو جاگتا تھا بہت
وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت
ہوا کے لمس سے چہرے پہ پھول کھلتے تھے
وہ چاندنی سا بدن موجۂ صبا تھا بہت
پسِ دریچہ دو آنکھیں چمکتی رہتی تھیں
کہ اس کو نیند میں چلنے کا عارضہ تھا بہت
کہانیوں کی فضا بھی اسے تھی راس اخترؔ
حقیقتوں سے بھی عہدہ برآ ہوا تھا بہت
اختر ہوشیار پوری
No comments:
Post a Comment