Tuesday 3 May 2016

میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا

میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
سورج کی روشنی نے بڑا کام کر دیا
ہاتھوں پہ میرے اپنے لہو کا نشان تھا
لوگوں نے اس کے قتل کا الزام دھر دیا
گندم کا بیج پانی کی چھاگل اور اک چراغ
جب میں چلا تو اس نے یہ زاد سفر دیا
جاگا تو ماہتاب کی کنجی سرہانے تھی
میں خواب میں تھا جب مجھے روشن نگر دیا
اس کو تو اس شہر نے کچھ بھی دیا نہیں
اور اس نے پھر بھی شہر کو تحفے میں سر دیا
میرا بدن تو ردِ عمل میں خموش تھا
میری زباں نے ذائقۂ خشک و تر دیا
وہ حرف آشنا ہے مجھے یہ گماں نہ تھا
اس نے تو سب کو نقش بہ دیوار کر دیا
یوں بھی تو اس نے حوصلہ افزائی کی مِری
حرفِ سخن کے ساتھ ہی زخمِ ہنر دیا
اخترؔ یہی نہیں کہ مجھے بال و پر ملے
اس نے تو عمر بھر مجھے احساسِ پر دیا

اختر ہوشیار پوری

No comments:

Post a Comment