گزرتے وقت کے ہمراہ چل نہیں سکتا
میں اپنے آپ سے آگے نکل نہیں سکتا
تم آسمان ہو رنگت بدل بھی سکتے ہو
میں خاک و خون ہوں، خود کو بدل نہیں سکتا
دبی ہوئی ہیں بہت خواہشیں مِرے دل میں
میں اس زمین پہ کیوں ایڑیاں رگڑتا ہوں
جہاں کبھی کوئی چشمہ ابل نہیں سکتا
رہے گی مجھ کو ضرورت تِرے سہارے کی
میں اپنا ہاتھ پکڑ کر سنبھل نہیں سکتا
یہ اور بات کہ چھپ جاؤں بادلوں میں کہیں
مگر میں وقت سے پہلے تو ڈھل نہیں سکتا
فاضل جمیلی
No comments:
Post a Comment