Wednesday 4 May 2016

مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی

مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی
سائے میں پڑے رہئے یا پھوڑ کے سر چلئے
بس ایک گلی تک ہے دیوار کی آزادی
کچھ دیر کا ہنگامہ پھر ایک سی خاموشی
دوچار گھڑی کی ہے بیمار کی آزادی
ایک اور غلامی ہے ایک اور غلامی تک
کردار کی آزادی،۔ گفتار کی آزادی
ہم کو بھی محبت ہے ہم کو بھی شکایت ہے
ہم کو ہی نہیں ہی لیکن تکرارکی آزادی
آداب غلامی کے ہم سیکھ نہیں‌ پائے
دیکھی ہی نہیں‌ ہم نے دربار کی آزادی

فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment