مل جائے اگر ہم کو اظہار کی آزادی
ہم مانگنا چاہیں گے انکار کی آزادی
سائے میں پڑے رہئے یا پھوڑ کے سر چلئے
بس ایک گلی تک ہے دیوار کی آزادی
کچھ دیر کا ہنگامہ پھر ایک سی خاموشی
ایک اور غلامی ہے ایک اور غلامی تک
کردار کی آزادی،۔ گفتار کی آزادی
ہم کو بھی محبت ہے ہم کو بھی شکایت ہے
ہم کو ہی نہیں ہی لیکن تکرارکی آزادی
آداب غلامی کے ہم سیکھ نہیں پائے
دیکھی ہی نہیں ہم نے دربار کی آزادی
فاضل جمیلی
No comments:
Post a Comment