تُو اگر ایسا سمجھتا ہے تو ایسا نہیں ہے
عشق جس چیز کو کہتے ہیں تماشا نہیں ہے
اک الاؤ سا بھڑکتا ہے مِرے سینے میں
جو تجھے یاد نہ کرنے کا نتیجہ نہیں ہے
تجھ سے شکوہ ہے مجھے دوست، زمانے سے نہیں
کتنی بوجھل ہوئی جاتی ہیں یہ آنکھیں میری
کتنے دن سے وہ گلے لگ کے جو رویا نہیں ہے
میں اسی واسطے تاریخ کا مجرم ٹھہرا
میں نے سِکوں کے عِوض ذات کو بیچا نہیں ہے
جانتا ہے کہ پلٹتے نہیں جانے والے
دل کھلونے سے بہلتا کوئی بچہ نہیں ہے
ظن و تخمین سے آگے کی کوئی بات ہوں میں
تُو نے اے دوست! یقیناً مجھے سمجھا نہیں ہے
تِرے اشعار سے خوشبو کے سمندر مہکیں
تُو غزل گو ہے کوئی قافیہ پیما نہیں ہے
چاہتے رہنا جسے، اس سے گِلہ بھی کرنا
یہ بہر طور محبت کا تقاضا نہیں ہے
راس آئے گی کہاں تجھ کو رفاقت میری
گر تجھے میری محبت پہ بھروسا نہیں ہے
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment