یہ کس کی یاد کا غم دستکیں پلکوں پہ دیتا ہے
مسافر کس نگر کا خیمہ گاہ، دل میں ٹھہرا ہے
سُتے چہرے سے، سرخ آنکھوں سے ہنس کر بولنے والا
یہ لگتا ہے کہ ساری رات تنہائی میں رویا ہے
کسی گزرے ہوئے کمزور لمحے کا فسوں تھا وہ
جو کل ماضی میں آئینہ دکھاتا تھا زمانے کو
وہ اب خود آئینے کے سامنے جانے سے ڈرتا ہے
فقط اک رسم ہے دیوار و در کو آشیاں کہنا
وگرنہ اصل میں گھر تو مکینوں ہی سے بنتا ہے
فقیہِ شہر پوشاکِ حریری زیب تن کر کے
ہمیں صبر و رضا کی زندگی کا درس دیتا ہے
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment